﷽
"In The Name Of Allah, The Most Gracious, The Most Merciful."
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ" ﺳﻮﺭﮦﺀ ﺍﺧﻼﺹ "ﭘﮍﮪ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺖ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﷲ ﭘﺎﮎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﮮ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺻﺪﻗﮧ ﺟﺎﺭﯾﮧ ﮨﮯ
Read "Surah Sincerity" Once Before Starting And Allah Almighty Intended To Reward Him From The Beginning, To All The Muslims Who Have Gone Out Of This World This Is a Great Charity.
ایک ناقابل فراموش داستان
زندگی کو بدل دینے والی کہانی
روز قیامت
زمین کے سینے پر ایک سلوٹ بھی
باقی نہیں رہی تھی ۔ دریا اور پہاڑی کھائی اور ٹیلے سمندر اور جنگل غرض دھرتی کا
ہرنشیب مٹ چکا اور ہرفراز ختم ہو چکا تھا۔ دور تک بس ایک سیدھا میدان تھا اور اوپر
آگ اگلتا آسان مگر آج اس آسمان کا رنگ نیلا نہ تھا، لال انگارہ تھا۔ یہ لالی سورج
کی دہکتی آگ کے بجائے جہنم کے ان بھڑ کتے شعلوں کا ایک اثرتھی جو اژدہے کی مانند
منہ کھولے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف لپکتے اور سورج کو اپنی گرفت میں لینے کی
کوشش کرتے ۔ جہنمی شعلوں کی لپک کا یہ خوفناک منظر اور بھڑکتی آگ کے دہکنے کی آواز
دلوں کولر زارہی تھی۔
![]() |
When Life Begins |
لرزتے ہوئے یہ دل مجرموں کے دل تھے۔ یہ غافلوں ، متکبروں، ظالموں،
قاتلوں اور سرکشوں کے دل تھے۔ یہ زمین کے فرعونوں اور جباروں کے دل تھے۔ یہ اپنے
دور کے خداؤں اور زمانے کے ناخداؤں کے دل تھے۔ یہ دل ان لوگوں کے تھے جوگزری ہوئی
دنیا میں ایسے جیے جیسے انہیں مرنا نہ تھا۔ مگر جب مرے تو ایسے ہو گئے کہ گویا
کبھی دھرتی پر بسے ہی نہ تھے۔ یہ خدا
کی بادشاہی میں خدا کونظرانداز کر کے جینے والوں کے دل تھے۔ یہ مخلوق خدا پر اپنی
خدائی قائم کرنے والوں کے دل تھے۔ یہ انسانوں کے درد اور خدا کی یاد سے خالی دل
تھے۔
سوآج وہ دن شروع ہو گیا جب ان
غافل دلوں کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور ختم نہ ہونے والے عذابوں کی غذا بن جانا
تھا. وہ عذاب جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے پتھروں اور ان پتھردلوں کے منتظر تھے۔ آج
ان عذابوں کا یوم العید تھا کہ ان کی ازلی بھوک مٹنے والی تھی ۔ ان عذابوں کے خوف
سے خدا کے یہ مجرم پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے تھے مگر اس میدان حشر میں کسی
پناه اورکون سی عافیت۔ ہر جگہ آفت مصیبت تھی اور ان پتھر دل مجرموں کی ختم نہ ہونے
والی بدبختی تھی۔
![]() |
When Life Begins |
خبر نہیں اس حال میں کتنے برس
کتنی صدیاں گزرچکی ہیں ۔ حشرکا میدان اور قیامت کا دن ہے۔ نئی زندگی شروع ہو چکی
ہے۔ کبھی ختم نہ ہونے کے لیے۔ میں بھی حشر کے اس میدان میں گم سم کھڑا خالی
آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔ میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے دوڑتے، گرتے پڑتے
چلے جارہے ہیں ۔ فضامیں شعلوں کے بھڑکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے،
رونے پیٹنے اور آہ و زاری کی آوازیں گونج رہی ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ
رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، لڑ جھگڑ رہے ہیں، الزام تراشی کررہے ہیں، آپس میں
گتھم گتھا ہیں۔
![]() |
When Life Begins |
کوئی سر پکڑے بیٹھا ہے۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا
ہے۔ کوئی چہرہ چھپارہا ہے۔ کوئی شرمندگی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرا رہا
ہے۔ کوئی خود کو کوس رہا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں ، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس
تباہی کا ذمہ داری ٹھرا کران پر برس رہا ہے۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی ہے۔
قیامت کا دن آ گیا ہے اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں ۔ اب یه کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں،
ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار ہے۔
کائنات کے مالک کے ظہور کا ، جس کے بعد حساب کتاب شروع ہو گا اور عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا
فیصلہ ہو جائے گا ۔
یکا یک ایک آدی میر ے بالکل قریب چلایا
"ہائے اس سے تو موت اچھی تھی ۔ اس سے تو
قبرکا گڑھا اچھا تھا۔“
میں اردگرد کی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا کہ یہ
چینخ نما آواز مجھے سوچ کی وادیوں سے حقیقت کے اس میدان میں لے آئی جہاں میں بہت
دیر سے گم سم کھڑا تھا۔
لمہے بھر میں میرے ذہن میں ابتدا سے انتہا
تک سب کچھ تازہ ہو گیا۔ اپنی کہانی، دنیا کی کہانی ، زندگی کی کہانی ...... سب فلم
کی ریل کی طرح میرے دماغ میں گھومنے گی۔
اس بھیانک دن کے آغاز پر میں اپنے گھر میں تھا۔ اس
گھر کا محل وقوع خارجی دنیا کے کسی شخص کو سمجھای انہیں جاسکتا۔ ایک نظر سے یہ گھر
قبر کا ایک تار یک گڑھا مگر دراصل یہ آخرت کی دنیا کا پہلا دروازہ تھا.... وہ
دروازہ جسے اندر سے نہیں کھولا جاسکتا۔ مجھے اس دروازے کو کھولنے میں کوئی
دلچسپی بھی نہیں ۔ کیونکہ میں اس دروازے سے گزر کر برزخ کی اس دنیامیں داخل ہو چکا
تھا جس میں میرے لیے ختم نہ ہونے والی راحت تھی ۔ اس روز مجھ سے میرا ہمدم اور
میرا محبوب دوست صالح ملنے آیا ہوا تھا۔ صالح وہ فرشتہ تھا جو دنیا کی زندگی میں
میرے دائیں ہاتھ پر رہا۔ اس کی قربت موت کے بعد کی زندگی میں میرے لیے ہمیشہ باعث
طمانیت رہی تھی اور آج بھی ہمیشہ کی طرح ہماری پرلطف گفتگو جاری تھی ۔ دوران گفتگو
میں نے اس سے پوچھا
"یار یہ بتا تمھاری ڈیوٹی میرے ساتھ کیوں لگائی گئی ہے؟"
بات یہ ہے عبد الله کہ میں اور میرا ساتھی دنیا
میں تمھارے ساتھ ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔
وہ تمھاری برائیاں اور میں نیکیاں لکھتا تھا۔ تم
مجھے دو منٹ فارغ نہیں رہنے دیتے تھے۔ کبھی اللہ کا ذکر کبھی اس کی یاد میں آنسو
کبھی انسانوں کے لیے دعا کبھی نماز کبھی اللہ کی راہ میں خرچ کبھی خدمت خلق اوربھت کچھ اور نہیں تو تمھارے چہرے پرہر وقت
دوسروں کے لیے مسکراہٹ رہتی تھی۔ اس لیے میں ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا تھا۔
تم نے مجھے تھکا کر مار ہی ڈالا تھا، لیکن ہم فرشتے تم انسانوں کی طرح تو ہوتے ہیں
کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں ۔ اس لیے تمھاری اس برائی کے جواب میں بھی دیکھا کہ
میں تمھارے ساتھ ہوں اور تمھارا خیال رکھتا ہوں ۔ صالح نے انتہائی سنجیدگی سے میری
بات کا جواب دیا۔
میں نے اس کی بات کے جواب میں اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا
تم سے زیادہ برائی میں نے الٹے ہاتھ والے کے ساتھ
کی تھی ۔ وہ میرا گناہ لکھتا مگر میں اس کے بعد فورا تو بہ کر لیتا۔ پھر وہ بے
چارہ اپنے سارے لکھے لکھے کو بیٹھ کر مناتا اور مجھے برا بھلا کہتا کہ تم نے
مٹوانا ہی تھاتو لکھوایا کیوں تھا۔ آخر کار اس نے تنگ آ کر الله تعالی سے دعا کی
کہ اس شخص سے میری جان چھڑائیں۔ اس لیے موت کے بعد سے اب تم ہی میرے ساتھ رہتے ہو“
یہ سن کرصالح ہنسنے لگا اور بولا
فکر نہ کرو حساب کتاب کے وقت وہ
پھر آ جائے گا۔ قانون کے تحت ہم دونوں مل کر ہی تمھیں اللہ تعالی کے سامنے پیش
کریں گے۔
یہ بات کہتے کہتے اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کے
آثار نمودار ہو گئے۔ وہ بولتے بولتے چپ ہوا اور سر جھکا کر ایک گہری خاموشی میں
ڈوب گیا۔ میں نے اس کا یہ انداز آج تک نہ دیکھا تھا۔ چند لمھوں بعد اس نے سر
اٹھایا تو اس کے چہرے سے ہمیشہ رہنے
والی شگفتی اور مسکراہٹ رخصت ہو چکی تھی اور اس کی جگہ خوف کے سایوں نے لے لی تھی۔
مجھے دیکھ کر وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا
عبد اللہ ! اسرائیل کو حکم مل چکا ہے۔ خدا کا وعدہ
پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اہل زمین کی مہلت ختم ہوگئی ہے۔ تم کچھ عرصہ مزید بر
زخ کے اس پردے میں خدا کی رحمتوں کے سائے میں رہو گے ، مگر میں اب رخصت ہور ہا ہوں
۔ اب میں تم سے اس وقت ملوں گا جب زندگی شروع ہوگی ۔ تمہاری آنکھ کھلے کی تو قیامت
کا دن شروع ہو چکا ہو گا۔ میں اس روز تم سے دوبارہ ملوں گا
Comments
Post a Comment